نئی دہلی، 7/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)کانگریس نے دہلی کی طرف پیش قدمی کرنے والے کسانوں کو روکنے کی کوشش پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پارٹی نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو فوری طور پر کسان نمائندوں کو مذاکرات کے لیے بلانا چاہیے۔ کانگریس نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں ہی ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی کے لیے قانون منظور کیا جائے تاکہ کسانوں کے مسائل کا فوری حل نکالا جا سکے۔
کانگریس جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجے والا نے آج اس تعلق سے ایک پریس کانفرنس کیا۔ اس دوران انھوں نے کہا کہ پورے شمالی ہندوستان کا کسان دہلی کوچ کر رہا ہے۔ مودی حکومت نے 3 سیاہ قوانین اس وعدے کے ساتھ واپس لیے تھے کہ ایم ایس پی کی گارنٹی کا قانون لایا جائے گا، لیکن 2 سال گزر گئے۔ آج ایک بار پھر ملک کے کسان دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہیں۔ کسان چاہتے ہیں کہ وہ پرامن دہلی پہنچ کر مودی حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھ سکیں، انھیں وعدہ یاد دلائیں۔ لیکن کسانوں کو بریکیڈس، کیل اور تار لگا کر روکا جا رہا ہے۔
سرجے والا نے پی ایم مودی پر طنزیہ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم مودی کے پاس فلم دیکھنے کا وقت ہے، لیکن کسانوں سے ملاقات کے لیے وقت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب ملک کے وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان سے پارلیمنٹ میں پوچھا گیا کہ ایم ایس پی کی گارنٹی کا قانون بنائیں گے یا نہیں، تو وہ سرعام اسے ٹال گئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کسانوں کو قرض سے راحت ملے گی یا نہیں، تو وہ اس سے بھی انکار کر گئے۔‘‘ سرجے والا نے مزید کہا کہ ’’ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کسانوں کو بات چیت کے لیے بلائیں اور پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں ایم ایس پی کی گارنٹی کا قانون پاس کیا جائے۔‘‘
پریس کانفرنس میں کانگریس جنرل سکریٹری سرجے والا نے پی ایم مودی کے سامنے کچھ اہم سوالات بھی رکھے، جو اس طرح ہیں:
- وزیر اعظم کو فلمیں دیکھنے کی فرصت ہے تو ملک کے کسانوں سے بات کرنے کی فرصت کیوں نہیں؟
- کسان دہلی آ کر اپنے وزیر اعظم سے انصاف کی گزارش کیوں نہیں کر سکتے؟
- ملک کے وزیر اعظم کسانوں سے ملاقات کرنے سے کیوں بچ رہے ہیں؟
- ایم ایس پی کی گارنٹی کا قانون کسانوں کو کب ملے گا؟
- اس پارلیمانی اجلاس میں ایم ایس پی کی گارنٹی کا قانون کیوں نہیں لایا جا سکتا؟
- اگر کارپوریٹ کمپنیوں کو ٹیکس میں راحت دے کر سالانہ 3 لاکھ کروڑ روپے دیا جا سکتا ہے، 17 لاکھ کروڑ روپے بینک کا بٹہ اکاؤنٹ میں ڈالا جا سکتا ہے، تو کسانوں کا قرض معاف کیوں نہیں ہو سکتا؟